Tuesday 21 June 2016

کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا

کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا
ہر ایک رنگ میں اپنا ہی بس تماشا تھا
ہم آج تک تو کوئی امتیاز کر نہ سکے
یہاں تو جو بھی ملا ہے وہ تیرے جیسا تھا
عجیب خواب تھا، تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا
نہ کوئی ظلم، نہ ہلچل، نہ مسئلہ کوئی
ابھی کی بات ہے میں حادثے اگاتا تھا
ہر ایک شخص نے اپنے سے منسلک سمجھی
کوئی کہانی کسی کی کسی سے کہتا تھا
ہمارا نام تھا آشفتہؔ حال لوگوں میں
خزاں پسند طبیعت کا اپنی چرچا تھا

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment