ہم سے ملے نہ آپ تو ہم بھی نہ مر گئے
کہنے کو رہ گیا یہ سخن دن گزر گئے
کہتے ہیں خوشدلی ہے جہاں میں یہ سب غلط
رنج و تعب ہی ہم نے تو دیکھا جدھر گئے
بھٹکا پھِروں ہوں یاں میں اکیلا ہر ایک سمت
روئے گی کب تک اے مژۂ اشک بار! بس
اب کیا مجھے ڈبوئے گی جل تھل تو بھر گئے
قائمؔ خدا کے واسطے مت گلرخوں سے مل
اس چہچہے میں یار ہزاروں کے گھر گئے
قائم چاند پوری
No comments:
Post a Comment