Sunday 12 June 2016

ہم سے ملے نہ آپ تو ہم بھی نہ مر گئے

ہم سے ملے نہ آپ تو ہم بھی نہ مر گئے
کہنے کو رہ گیا یہ سخن دن گزر گئے
کہتے ہیں خوشدلی ہے جہاں میں یہ سب غلط
رنج و تعب ہی ہم نے تو دیکھا جدھر گئے
بھٹکا پھِروں ہوں یاں میں اکیلا ہر ایک سمت
اے ہمرہانِ پیش قدم! تم کِدھر گئے
روئے گی کب تک اے مژۂ اشک بار! بس
اب کیا مجھے ڈبوئے گی جل تھل تو بھر گئے
قائمؔ خدا کے واسطے مت گلرخوں سے مل
اس چہچہے میں یار ہزاروں کے گھر گئے

قائم چاند پوری

No comments:

Post a Comment