Monday 20 June 2016

دھوپ میں تھا جو سائباں کی طرح

دھوپ میں تھا جو سائباں کی طرح
دور تھا مجھ سے آسماں کی طرح
دی صدا کن سمندروں نے مجھے
دل کھلا میرا بادباں کی طرح
ایک چہرے کا عکس ہے دل پر
کسی مٹتے ہوئے نشاں کی طرح
کبھی مجھ سے گریز پا نہ ہوا
غم ہے اک یارِ مہرباں کی طرح
سایا کیسا کمالؔ، ہاتھ اپنا
سر پہ رکھ اپنے سائباں کی طرح

حسن اکبر کمال

No comments:

Post a Comment