Sunday, 12 June 2016

گر کیجیے انصاف تو کی زور وفا میں

گر کیجیے انصاف تو کی زور وفا میں
خط آتے ہی سب چل گئے اب آپ ہیں یا میں
تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے ان کی
لیکن ٹک اِدھر دیکھیو اے یار! بھلا میں
رکھتا ہے برہمن بچہ کچھ ایسی وہ رفتار
بت ہو گیا دھج دیکھ کے جس کی بخدا میں
(قطعہ)
یارو نہ بندھی اس سے کبھو شکلِ ملاقات
ملنے کو تو اس شوخ کے ترسا ہی کیا مَیں
جب میں گیا اس کے تو اسے گھر میں نہ پایا
آیا وہ اگر میرے تو در خود نہ رہا میں
کیفیتِ چشم اس کی تجھے یاد ہے سوداؔ؟
ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

مرزا رفیع سودا

No comments:

Post a Comment