کب حق پرست زاہدِ جنت پرست ہے
حوروں پہ مر رہا ہے، یہ شہوت پرست ہے
دل صاف ہو تو چاہیے معنی پرست ہو
آئینہ خاک صاف ہے، صورت پرست ہے
درویش ہے وہی جو ریاضت میں چست ہو
جز زلف سوجھتا نہیں اے مرغِ دل تجھے
خفّاش تو نہیں ہے کہ ظلمت پرست ہے
دولت کی رکھ نہ مارِ سرِ گنج سے امید
موذی وہ دے گا کیا کہ جو دولت پرست ہے
عنقا نے گم کیا ہے نشاں نام کے لیے
گم گشتہ کون کہتا ہے، شہرت پرست ہے
یہ ذوقِؔ مے پرست ہے یا ہے صنم پرست
کچھ ہے بلا سے لیک محبت پرست ہے
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment