ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
اور پاس جو بیٹھوں تو سناتا ہے سرک بے
کہتا ہوں کبھی گھر مِرے آ، تو ہے کہتا
چوکھٹ پہ ہماری کوئی دن سر تو پٹک بے
جب بدر نکلتا ہے تو کہتا ہے وہ مغرور
پردہ جو الٹ دوں گا ابھی منہ سے تو دم میں
اڑ جائے گی چہرے کی تِرے سب یہ چمک بے
سب بانکپن اب تیرا نظیرؔ عشق نے کھویا
کیا ہو گئی سچ کہہ دو وہ دوت دبک بے
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment