Saturday 25 June 2016

ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے

ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے
اور پاس جو بیٹھوں تو سناتا ہے سرک بے
کہتا ہوں کبھی گھر مِرے آ، تو ہے کہتا
چوکھٹ پہ ہماری کوئی دن سر تو پٹک بے
جب بدر نکلتا ہے تو کہتا ہے وہ مغرور
کہہ دو اسے یاں آن کے اتنا نہ چمک بے
پردہ جو الٹ دوں گا ابھی منہ سے تو دم میں
اڑ جائے گی چہرے کی تِرے سب یہ چمک بے
سب بانکپن اب تیرا نظیرؔ عشق نے کھویا
کیا ہو گئی سچ کہہ دو وہ دوت دبک بے

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment