بہکی بہکی ہیں، نگاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
کھوئی کھوئی سی ہیں، راہوں کو نہ جانے کیا ہوا
دل کی رگ رگ میں رواں تھا جن سے خون زندگی
ان تمنّاؤں کو، چاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
نا مکمّل تھا فسانہ دِہر کا جن کے بغیر
آسماں سے واپس آئیں، دل میں گھٹ کر رہ گئیں
کیا بتاؤں، میری آہوں کو نہ جانے کیا ہوا
معبد ہستی میں تھا جن کو عبدیّت پہ ناز
ان جبینوں، سجدہ گاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
بن گئی ہیں دور ساغر بزم رنداں میں ضیاؔ
ان کی شرمیلی نگاہوں کو نہ جانے کیا ہوا
ضیا فتح آبادی
No comments:
Post a Comment