Wednesday, 1 June 2016

نظر سے نظر ملانا کوئی مذاق نہیں

نظر سے نظر ملانا کوئی مذاق نہیں
ملا کے آنکھ چرانا کوئی مذاق نہیں
پہاڑ کاٹ تو سکتا ہے تیشۂ فرہاد
پہاڑ سر پہ اٹھانا کوئی مذاق نہیں
اڑانیں بھرتے رہیں لاکھ طائران خیال
ستارے توڑ کے لانا کوئی مذاق نہیں
لہا لہو ہے جگر داغ داغ ہے سینہ
یہ دو دلوں کا فسانہ کوئی مذاق نہیں
ہوائیں آج بھی آوارہ و پریشاں ہیں
مہک گلوں کی اڑانا کوئی مذاق نہیں
ہزاروں کروٹیں لیتے ہیں آسمان و زمیں
گرے ہوؤں کو اٹھانا کوئی مذاق نہیں
یہ اور بات بلائیں نہ اپنی محفل میں
مگر ضیاؔ کو بھلانا کوئی مذاق نہیں

ضیا فتح آبادی

No comments:

Post a Comment