Saturday, 18 June 2016

میری بدخوئی کے بہانے ہیں​

میری بدخوئی کے بہانے ہیں​
رنگ کچھ اور ان کو لانے ہیں​
رحم اے اضطراب رحم کہ آج​
ان کو زخمِ جگر دکھانے ہیں​
کیسی نیند اور پاسباں کس کا​
یاں نہ آنے کے سب بہانے ہیں​
کر کے ایفائے عہد کا مذکور​
اپنے احساں انہیں جتانے ہیں​
اسکی شوخی کی ہے کوئی حد بھی​
اک نہ آنے کے سو بہانے ہیں​
سر اٹھانا وبال ہے، اور یاں​
ناز ان کے ابھی اٹھانے ہیں​
ظلم سے ان کا پیٹ بھرنے تک​
ہم کو تیغ و تیر ہی کھانے ہیں​
ان بتوں ہی کو حسن دینا تھا​
کیا خدائی کے کارخانے ہیں​
الم و درد و رنج و بے تابی​
یار اپنے یہی پرانے ہیں​
کیا ہماری نماز، کیا روزہ​
بخش دینے کے سو بہانے ہیں​
میں کروں جستجو کہاں جا کر​
ان کے تو سو جگہ ٹھکانے ہیں​
قافیے کو بدل کے اے مجروحؔ ​
اور اشعار کچھ سنانے ہیں​

میر مہدی مجروح

No comments:

Post a Comment