مل جائے مے تو سجدۂ شکرانہ چاہیے
پیتے ہی ایک لغرشِ مستانہ چاہیے
ہاں احترامِ کعبہ و بت خانہ چاہیے
مذہب کی پوچھئے تو جداگانہ چاہیے
رندانِ مے پرست سیہ مست ہی سہی
دیوانگی ہے، عشق نہیں ہے کہ خام ہو
دیوانہ ہر لحاظ سے دیوانہ چاہیے
اس زندگی کو چاہیے سامانِ زندگی
کچھ بھی نہ ہو تو شیشہ و پیمانہ چاہیے
او ننگِ اعتبار! دعا پر نہ رکھ مدار
او بے وقوف! ہمتِ مردانہ چاہیے
رہنے دے جامِ جَم، مجھے انجامِ جَم سنا
کھُل جائے جس سے آنکھ وہ افسانہ چاہیے
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment