وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا
کہ میں حیا ہی پر اس کی فقط نثار ہوا
سبھوں کو بوسے دیے ہنس کے اور ہمیں گالی
ہزار شکر! بھلا اس قدر تو پیار ہوا
ہمارے مرنے کو، ہاں، تم تو جھوٹ سمجھے تھے
قرار کر کے نہ آیا وہ سنگ دل کافر
پڑیں قرار پہ پتھر، یہ کچھ قرار ہوا
گلے کا ہار جو اس گلبدن کا ٹوٹ پڑا
تو ڈر نظر کا وہیں اس کو ایک بار ہوا
کسی سے اور تو کچھ بس چلا نہ اس کا نظیرؔ
ندان میرے ہی آ کر گلے کا ہار ہوا
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment