Tuesday 21 June 2016

کوئی حساب ہی رکھا نہیں ہے اب کے ساتھ

کوئی حساب ہی رکھا نہیں ہے اب کے ساتھ
بچھڑ گئے ہیں نہ جانے کہاں پہ کب کے ساتھ
خود اپنی راہ نکالی ہے میں نے پتھر سے
تمام عمر گزاری ہے اپنے ڈھب کے ساتھ
خدا کو چھوڑ دیا ہے فلک پہ انساں نے
کِیا ہے ظلم بہت اس نے اپنے رب کے ساتھ
یہ میرے سامنے تنہائیوں کا جنگل ہے
کہاں پہ چھوڑ گئے مجھ کو پچھلی شب کے ساتھ
بہت حسین ہے وہ دل مگر کرے گا نسیمؔ
نباہ کیسے کسی یارِ بے ادب کے ساتھ

افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment