عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے
نہ روئے بیٹوں کے غم میں حسین، واہ رے صبر
یہ داغ، ہوش بشر کے بجا نہیں رکھتے
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
ابو تراب سے جو پیشوا کے پیرو ہیں
قدم بھی خاک پہ وہ بے رضا نہیں رکھتے
غمِ حسین کے داغوں سے دل کرو روشن
خبر لحد کے اندھیروں کی کیا نہیں رکھتے
جہازِ آلِ نبیﷺ کیا بچے تباہی سے
تلاطم ایسا ہے اور ناخدا نہیں رکھتے
گلوئے اصغرِ معصوم و تیر و واویلا
یہ ظلم وہ ہیں کہ جو انتہا نہیں رکھتے
ہمیں تو دیتا ہے رازق بغیر منتِ خلق
وہی سوال کرے، جو خدا نہیں رکھتے
مسافرو! شبِ اول بہت ہے تیرہ و تار
چراغِ قبر ابھی سے جلا نہیں رکھتے
نبیﷺ کے حکم سے پھیرنا، معاذ اللہ
وہ کون ہیں، جو یہ ماتم بپا نہیں رکھتے
نہ لوٹو آلؐ کو اعداء سے کہتی تھی فضہ
نبیؐ کی روح سے بھی تم حیا نہیں رکھتے
سکینہ کہتی، تھی کیونکر نہ دم گھٹے اماں
وہاں ہیں بند، جو حجرے ہوا نہیں رکھتے
تپِ دروں، غمِ فرقت، ورم، پیادہ روی
مرض تو اتنے ہیں اور کچھ دوا نہیں رکھتے
حسین تیغوں کے آگے سے کس طرح ہٹتے
بڑھا کے پیچھے قدم، پیشوا نہیں رکھتے
شہادتِ پسرِ فاطمہ کا ہے یہ علم
کہ تابِ ضبط، رسولِؐ خدا نہیں رکھتے
فقط حسین پہ یہ تفرقہ پڑا،۔۔ ورنہ
کسی کی لاش سے سر کو جدا نہیں رکھتے
سوئم تو باپ کا کرنے دو کہتے تھے سجاد
یہ پھول وہ ہیں، کہ جن کواٹھا نہیں رکھتے
کھلے گا حال انہیں، جبکہ آنکھ بند ہوئی
جو لوگ، الفتِ مشکل کشا نہیں رکھتے
قناعت و گہرِ آبرو و دولتِ دیں
ہم اپنے کیسۂ خالی میں کیا نہیں رکھتے
فشارِ قبر کا ڈر ہو تو ان کو ہو جو لوگ
کفن میں صرۂ خاکِ شفا نہیں رکھتے
انیسؔ بیچ کے جاں اپنی ہند سے نکلو
جو توشۂ سفرِ کربلا نہیں رکھتے
میر انیس
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے
نہ روئے بیٹوں کے غم میں حسین، واہ رے صبر
یہ داغ، ہوش بشر کے بجا نہیں رکھتے
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
ابو تراب سے جو پیشوا کے پیرو ہیں
قدم بھی خاک پہ وہ بے رضا نہیں رکھتے
غمِ حسین کے داغوں سے دل کرو روشن
خبر لحد کے اندھیروں کی کیا نہیں رکھتے
جہازِ آلِ نبیﷺ کیا بچے تباہی سے
تلاطم ایسا ہے اور ناخدا نہیں رکھتے
گلوئے اصغرِ معصوم و تیر و واویلا
یہ ظلم وہ ہیں کہ جو انتہا نہیں رکھتے
ہمیں تو دیتا ہے رازق بغیر منتِ خلق
وہی سوال کرے، جو خدا نہیں رکھتے
مسافرو! شبِ اول بہت ہے تیرہ و تار
چراغِ قبر ابھی سے جلا نہیں رکھتے
نبیﷺ کے حکم سے پھیرنا، معاذ اللہ
وہ کون ہیں، جو یہ ماتم بپا نہیں رکھتے
نہ لوٹو آلؐ کو اعداء سے کہتی تھی فضہ
نبیؐ کی روح سے بھی تم حیا نہیں رکھتے
سکینہ کہتی، تھی کیونکر نہ دم گھٹے اماں
وہاں ہیں بند، جو حجرے ہوا نہیں رکھتے
تپِ دروں، غمِ فرقت، ورم، پیادہ روی
مرض تو اتنے ہیں اور کچھ دوا نہیں رکھتے
حسین تیغوں کے آگے سے کس طرح ہٹتے
بڑھا کے پیچھے قدم، پیشوا نہیں رکھتے
شہادتِ پسرِ فاطمہ کا ہے یہ علم
کہ تابِ ضبط، رسولِؐ خدا نہیں رکھتے
فقط حسین پہ یہ تفرقہ پڑا،۔۔ ورنہ
کسی کی لاش سے سر کو جدا نہیں رکھتے
سوئم تو باپ کا کرنے دو کہتے تھے سجاد
یہ پھول وہ ہیں، کہ جن کواٹھا نہیں رکھتے
کھلے گا حال انہیں، جبکہ آنکھ بند ہوئی
جو لوگ، الفتِ مشکل کشا نہیں رکھتے
قناعت و گہرِ آبرو و دولتِ دیں
ہم اپنے کیسۂ خالی میں کیا نہیں رکھتے
فشارِ قبر کا ڈر ہو تو ان کو ہو جو لوگ
کفن میں صرۂ خاکِ شفا نہیں رکھتے
انیسؔ بیچ کے جاں اپنی ہند سے نکلو
جو توشۂ سفرِ کربلا نہیں رکھتے
میر انیس
No comments:
Post a Comment