Saturday, 25 June 2016

کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے​
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں‌ رکھتے​
نہ روئے بیٹوں‌ کے غم میں‌ حسین، واہ رے صبر​
یہ داغ، ہوش بشر کے بجا نہیں رکھتے​
کسی کو کیا ہو دلوں‌ کی شکستگی کی خبر​
کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے​
ابو تراب سے جو پیشوا کے پیرو ہیں​
قدم بھی خاک پہ وہ بے رضا نہیں رکھتے​
غمِ حسین کے داغوں سے دل کرو روشن​
خبر لحد کے اندھیروں کی کیا نہیں‌ رکھتے​
جہازِ آلِ نبیﷺ کیا بچے تباہی سے​
تلاطم ایسا ہے اور ناخدا نہیں رکھتے​
گلوئے اصغرِ معصوم و تیر و واویلا​
یہ ظلم وہ ہیں کہ جو انتہا نہیں رکھتے​
ہمیں تو دیتا ہے رازق بغیر منتِ خلق​
وہی سوال کرے، جو خدا نہیں رکھتے​
مسافرو! شبِ اول بہت ہے تیرہ و تار​
چراغِ قبر ابھی سے جلا نہیں رکھتے​
نبیﷺ کے حکم سے پھیرنا، معاذ اللہ​
وہ کون ہیں، جو یہ ماتم بپا نہیں‌ رکھتے​
نہ لوٹو آلؐ کو اعداء سے کہتی تھی فضہ​
نبیؐ کی روح سے بھی تم حیا نہیں‌ رکھتے​
سکینہ کہتی، تھی کیونکر نہ دم گھٹے اماں
وہاں ہیں‌ بند، جو حجرے ہوا نہیں رکھتے​
تپ‌ِ دروں، غمِ فرقت، ورم، پیادہ روی​
مرض تو اتنے ہیں‌ اور کچھ دوا نہیں رکھتے​
حسین تیغوں‌ کے آگے سے کس طرح ہٹتے​
بڑھا کے پیچھے قدم، پیشوا نہیں رکھتے​
شہادتِ پسرِ فاطمہ کا ہے یہ علم​
کہ تابِ ضبط، رسولِؐ خدا نہیں رکھتے​
فقط حسین پہ یہ تفرقہ پڑا،۔۔ ورنہ​
کسی کی لاش سے سر کو جدا نہیں رکھتے​
سوئم تو باپ کا کرنے دو کہتے تھے سجاد​
یہ پھول وہ ہیں، کہ جن کواٹھا نہیں رکھتے​
کھلے گا حال انہیں، جبکہ آنکھ بند ہوئی​
جو لوگ، الفتِ مشکل کشا نہیں رکھتے​
قناعت و گہرِ آبرو و دولتِ دیں​
ہم اپنے کیسۂ خالی میں کیا نہیں رکھتے​
فشارِ قبر کا ڈر ہو تو ان کو ہو جو لوگ​
کفن میں صرۂ خاکِ شفا نہیں رکھتے​
انیسؔ بیچ کے جاں‌ اپنی ہند سے نکلو​
جو توشۂ سفرِ کربلا نہیں‌ رکھتے​

میر انیس

No comments:

Post a Comment