دیکھتا ہوں تجھ کو اکثر، اے سمندر، اے سمندر
جیسے ہو تُو میرے اندر، اے سمندر، اے سمندر
تیرے طوفانوں نے کی یلغار چٹانوں پہ شب بھر
شور تھا بامِ فلک پر، اے سمندر، اے سمندر
ڈھونڈتی ہے آنکھ سطحِ آپ پر چہرہ کسی کا
بے کرانی میں تُو اپنی میری ویرانی سمو لے
میں ہُوا ہوں پھر سے بے گھر، اے سمندر، اے سمندر
تیرگی کی پھیلتی چادر میں ہم دونوں ہیں چپ کیوں
گونج اٹھ منظر بہ منظر، اے سمندر، اے سمندر
دیکھنے آیا ہے تجھ میں دور سے چل کر اویسیؔ
ڈوبتے سورج کا منظر، اے سمندر، اے سمندر
جمال اویسی
No comments:
Post a Comment