جو دکھ ملنے کا یہ عالم رہے گا
خزانہ آنسوؤں کا کم رہے گا
دعاۓ گریہ مانگی اور نہ سوچا
اب آنکھوں میں یہی موسم رہے گا
کشیدہ سر قلم ہوتے رہیں گے
اسے آنے کی فرصت اب نہ ہو گی
ہمیں بھی انتظار اب کم رہے گا
گُلِ لب پر تِرے پل بھر مِرا نام
مثالِ قطرۂ شبنم رہے گا
کمالؔ اِن میں رہے گا ایک ہی خواب
مِری آنکھوں میں جب تک دم رہے گا
حسن اکبر کمال
No comments:
Post a Comment