Monday 20 June 2016

جو دکھ ملنے کا یہ عالم رہے گا

جو دکھ ملنے کا یہ عالم رہے گا
خزانہ آنسوؤں کا کم رہے گا
دعاۓ گریہ مانگی اور نہ سوچا
اب آنکھوں میں یہی موسم رہے گا
کشیدہ سر قلم ہوتے رہیں گے
بچے گا سر وہی جو خم رہے گا
اسے آنے کی فرصت اب نہ ہو گی
ہمیں بھی انتظار اب کم رہے گا
گُلِ لب پر تِرے پل بھر مِرا نام
مثالِ قطرۂ شبنم رہے گا
کمالؔ اِن میں رہے گا ایک ہی خواب
مِری آنکھوں میں جب تک دم رہے گا

حسن اکبر کمال

No comments:

Post a Comment