Sunday 12 June 2016

بڑھائیں گے نہ کبھی ربط ہم بہاروں سے

بڑھائیں گے نہ کبھی ربط ہم بہاروں سے
ٹپک رہا ہے لہو اب بھی شاخساروں سے
کہیں تو اپنی محبت پہ حرف آتا ہے
کچھ ایسے داغ بھی ہم کو ملے ہیں یاروں سے
نگاہِ دہر میں ذرے سہی، مگر ہم لوگ
ضیا کی بھیک نہیں مانگتے ستاروں سے
وہ داستاں ہے کہ دہرائے گی جسے دنیا
وہ بات ہے کہ جو سنی جائیگی نگاروں سے
ہمارے نام سے ہے آشنا چمن سارا
سخن کی داد ملی ہے ہمیں ہزاروں سے
فضا نہیں ہے ابھی کھُل کے بات کرنے کی
بدل رہے ہیں زمانے کو ہم اشاروں سے
نہ چھوڑنا کبھی طوفاں میں آس کی پتوار
یہ آ رہی ہے صدا دم بہ دم کناروں سے
جہاں میں آج بھی محفوظ ہیں وہی نغمے
محبتوں میں جو ابھرے ہیں دل کے تاروں سے
بزرگ بیٹھ کے لکھتے تھے عرش پر جالبؔ
اٹھائی بات مگر ہم نے رہگزاروں سے

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment