بڑھائیں گے نہ کبھی ربط ہم بہاروں سے
ٹپک رہا ہے لہو اب بھی شاخساروں سے
کہیں تو اپنی محبت پہ حرف آتا ہے
کچھ ایسے داغ بھی ہم کو ملے ہیں یاروں سے
نگاہِ دہر میں ذرے سہی، مگر ہم لوگ
وہ داستاں ہے کہ دہرائے گی جسے دنیا
وہ بات ہے کہ جو سنی جائیگی نگاروں سے
ہمارے نام سے ہے آشنا چمن سارا
سخن کی داد ملی ہے ہمیں ہزاروں سے
فضا نہیں ہے ابھی کھُل کے بات کرنے کی
بدل رہے ہیں زمانے کو ہم اشاروں سے
نہ چھوڑنا کبھی طوفاں میں آس کی پتوار
یہ آ رہی ہے صدا دم بہ دم کناروں سے
جہاں میں آج بھی محفوظ ہیں وہی نغمے
محبتوں میں جو ابھرے ہیں دل کے تاروں سے
بزرگ بیٹھ کے لکھتے تھے عرش پر جالبؔ
اٹھائی بات مگر ہم نے رہگزاروں سے
حبیب جالب
No comments:
Post a Comment