کُنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھُلا
کاش کے ہوتا قفس کا در کھلا
ہم پکاریں اور کھلے، یوں کون جائے
یار کا دروازہ پاویں گر کھلا
ہم کو ہے اس رازداری پر گھمنڈ
واقعی دل پر بھلا لگتا تھا داغ
زخم لیکن داغ سے بہتر کھلا
ہاتھ سے رکھ دی کب ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کی خنجر کھلا
مفت کا کس کو برا ہے بدرقہ
رہروی میں پردۂ رہبر کھلا
سوزِ دل کا کیا کرے بارانِ اشک
آگ بھڑکی، مِینہ اگر دم بھر کھلا
نامے کے ساتھ آ گیا پیغامِ مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ، اور کافر کھلا
مرزا غالب
No comments:
Post a Comment