Wednesday 28 December 2016

ہم نے اتنا تو دور سے دیکھا

ہم نے اتنا تو دور سے دیکھا
تم نے ہم کو غرور سے دیکھا
پھر بھی زد میں نگاہ آہی گئی
لاکھ جلوؤں کو دور سے دیکھا
حسن والوں نے عشق والوں کو
جب بھی دیکھا غرور سے دیکھا
آج فریادِ غم نکل ہی گئی
اس دلِ ناصبور سے دیکھا
جو نظر آئی، کامیاب آئی
آج ان کے حضور سے دیکھا
لاکھ افسانہ ہائے طور بنے
جلوۂ نور،۔ نور سے دیکھا
اس نے مجھ کو بھی آج اے بہزاؔد
نگہِ پُر سرور سے دیکھا

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment