ہم نے اتنا تو دور سے دیکھا
تم نے ہم کو غرور سے دیکھا
پھر بھی زد میں نگاہ آہی گئی
لاکھ جلوؤں کو دور سے دیکھا
حسن والوں نے عشق والوں کو
آج فریادِ غم نکل ہی گئی
اس دلِ ناصبور سے دیکھا
جو نظر آئی، کامیاب آئی
آج ان کے حضور سے دیکھا
لاکھ افسانہ ہائے طور بنے
جلوۂ نور،۔ نور سے دیکھا
اس نے مجھ کو بھی آج اے بہزاؔد
نگہِ پُر سرور سے دیکھا
بہزاد لکھنوی
No comments:
Post a Comment