یہ کیا ہوا میں اڑے اور پروں سے شعر کہے
نئے پرند سے کہہ دو، سکوں سے شعر کہے
جب اک غزل سے نہ ٹوٹا وہ سومنات بدن
تو میں نے سترہ نئے زاویوں سے شعر کہے
ہر ایک شخص پہ کُھلتا کہاں ہے بابِ عطا
سخن بلند تھا تم سے، سو دیکھ لو ہم نے
تمہارے بعد سبھی سر نِگوں سے شعر کہے
بجھے گی تشنہ لبوں کی ہمارے شعر سے پیاس
یہ سوچ کر ہی کُھلے پانیوں سے شعر کہے
خبر تھی چھاؤں کو ترسے گا وہ کبھی نہ کبھی
سو راؔز ہم نے بہت برگدوں سے شعر کہے
راز احتشام
No comments:
Post a Comment