Thursday 4 June 2020

اونچائیوں سے ہم ترے معیار پر گرے

اونچائیوں سے ہم تِرے معیار پر گرے
جیسے کوئی پہاڑ، کسی غار پر گرے
دو تین بار عشق میں ناکامیاں ہوئیں
دو تین رنگ ایک ہی دیوار پر گرے
اک رات کہکشاں مِری آغوش میں رہی
اور سب ستارے ٹوٹ کے دیوار پر گرے
اس رات کتنی دیر اسے سوچتا رہا
اس رات کتنے پھول مِری کار پر گرے
اپنے تئیں فلک کی طرف تھے رواں دواں
روکے بہت گئے تھے مِرے یار، پر گرے

راز احتشام

No comments:

Post a Comment