اونچائیوں سے ہم تِرے معیار پر گرے
جیسے کوئی پہاڑ، کسی غار پر گرے
دو تین بار عشق میں ناکامیاں ہوئیں
دو تین رنگ ایک ہی دیوار پر گرے
اک رات کہکشاں مِری آغوش میں رہی
اس رات کتنی دیر اسے سوچتا رہا
اس رات کتنے پھول مِری کار پر گرے
اپنے تئیں فلک کی طرف تھے رواں دواں
روکے بہت گئے تھے مِرے یار، پر گرے
راز احتشام
No comments:
Post a Comment