Thursday 4 June 2020

ہے عجب رنگ کی وحشت ترے دیوانے میں

ہے عجب رنگ کی وحشت تِرے دیوانے میں
جی نہ آبادی میں لگتا ہے، نہ ویرانے میں
ہوں وہ میکش کہ نہ مستی میں کہوں راز کبھی
لاکھ قُل قُل کہے شیشہ مجھے مے خانے میں
حشر تک جی میں ہے بے ہوش رہوں میں ساقی
کاش مے بھر دے مِری عمر کے پیمانے میں
نازکی سے ہوا قاتل مِری حالت کا شریک
یاں لگا زخم، تو واں درد اٹھا شانے میں
عشق میں دل نے پھنسایا تو ہوا غیر کو رنج
نہیں اپنے میں مروّت جو ہے بے گانے میں
یاں تو بجلی بھی سنبھل جاتی ہے گرتے گرتے
شمع کے ٹھہریں قدم کیا مِرے کاشانے میں
نوش کر شوق سے جی کھول کے, صرفہ کیا ہے
خوف بد ہضمی کا ناسخ نہیں غم کھانے میں

امام بخش ناسخ

No comments:

Post a Comment