وادئ کشمیر
بڑی اداس ہے وادی
گلا دبایا ہوا ہے کسی نےانگلی سے
یہ سانس لیتی رہے، پر یہ سانس لے نہ سکے
درخت اگتے ہیں کچھ سوچ سوچ کر جیسے
جو سر اٹھائے گا پہلے وہی قلم ہو گا
کہ دھوئے جاتے نہیں خون کے نشاں ان سے
ہری ہری ہے، مگر گھاس اب ہری بھی نہیں
جہاں پہ گولیاں برسیں، زمیں بھری بھی نہیں
وہ مایئگریٹری پنچھی جو آیا کرتے تھے
وہ سارے زخمی ہواؤں سے ڈر کے لوٹ گئے
بڑی اداس ہے وادی، یہ وادئ کشمیر
گلزار
No comments:
Post a Comment