Monday 8 June 2020

بڑی اداس ہے وادی

وادئ کشمیر

بڑی اداس ہے وادی
گلا دبایا ہوا ہے کسی نےانگلی سے
یہ سانس لیتی رہے، پر یہ سانس لے نہ سکے
درخت اگتے ہیں کچھ سوچ سوچ کر جیسے
جو سر اٹھائے گا پہلے وہی قلم ہو گا
جھکا کے گردنیں آتے ہیں ابر ، نادم ہیں
کہ دھوئے جاتے نہیں خون کے نشاں ان سے
ہری ہری ہے، مگر گھاس اب ہری بھی نہیں
جہاں پہ گولیاں برسیں، زمیں بھری بھی نہیں
وہ مایئگریٹری پنچھی جو آیا کرتے تھے
وہ سارے زخمی ہواؤں سے ڈر کے لوٹ گئے
بڑی اداس ہے وادی، یہ وادئ کشمیر

گلزار

No comments:

Post a Comment