Sunday, 7 June 2020

دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے

ان کی صورت ہمیں آئی تھی پسند آنکھوں سے
اور پھر ہو گئی بالا و بلند آنکھوں سے
کوئی زنجیر نہیں تارِ نظر سے مضبوط
ہم نے اس چاند پہ ڈالی ہے کمند آنکھوں سے
ٹھہر سکتی ہے کہاں اس رخِ تاباں پہ نظر
دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے
ہم اٹھاتے ہیں مزہ تلخی و شیرینی کا
مے پیالے سے پلاتا ہے وہ قند آنکھوں سے
بات کرتے ہو تو ہوتا ہے زباں سے صدمہ
دیکھتے ہو تو پہنچتا ہے گزند آنکھوں سے
ہر ملاقات میں ہوتی ہیں ہمارے مابین
چند باتیں لبِ گفتار سے، چند آنکھوں سے
عشق میں حوصلہ مندی بھی ضروری ہے شعور
دیکھیے اس کی طرف حوصلہ مند آنکھوں سے

انور شعور

No comments:

Post a Comment