Sunday, 5 July 2020

ابھی ہم خوبصورت ہیں

ابھی ہم خوبصورت ہیں

(خواتین کے عالمی دن پر احمد شمیم کی نذر)

ذہن میں بکھری سوچوں کو سمیٹ رہی تھی کہ وہ کتاب سامنے آ گئی جس میں بسی خوشبو
نے سانس کے ساکن ہونے کا عجیب زندہ احساس دیا
ان کہے جذبوں اور لفظوں نے ایسی تصویر بنائی 
کہ اپنی خوبصورتی کی باقی زرا سی خوش فہمی بھی انکھوں سے اوجھل ہو گئی

یاد آیا کہ دور کی جھیلوں میں بسنے والے کے لیے پرندوں کے پروں پر جو نظم لکھی تھی وہ تو اسے کبھی سنائی ہی نہیں
بند کمروں میں اترنے والے نئے دن اور اس کی تھکا دینے والی مسافت نے یہ تو یاد ہی نہیں رہنے دیا کہ 
مجھے رنگوں کے جگنو اور روشنی کی تتلیاں آواز بھی دیا کرتی تھیں
آج ہاتھوں کو اٹھایا اور نظر بھر کر دیکھا تو معلوم پڑا کہ ہتیھلیوں پر تتلی کے رنگ قسمت کی لکیر میں دفن ہو گئے ہیں
خوشی سے ہنسی تو ہنسی کی جھنجھناہٹ سے آنکھوں میں قید رنگوں کے جگنو گالوں کی طرف چل پڑے
اپنے سفید دوپٹے کو لہرایا تو من ہی من سوچ لیا کہ تتلیوں کے پر تو واقعی خوبصرت ہوتے ہیں
اپنا ماتمی اوتار جب کَھلنے لگا تو
یکدم قسمت کی کھردری لکیرکو کھرچ کے اس پہ رنگوں کے جگنوسجا لیے
روشنی کی تتلی جیسی سفید اوڑھنی سر پر اوڑھ کر کھڑکی کھولی تو گمان ہوا
کہ نیا دن تو واقعی نیا سا ہے
کھڑکی سے آتی ہوا اب بھی رنگوں کی خوشبو سے معطر ہے
مدت سے چمٹی خواہشوں کی خشک پپڑیوں کو ہونٹوں سے نوچتے ہوئے
گالوں پہ بہتے برسوں پرانے ادھورے خوابوں کے رنگیں جگنوں کو آنچل میں سمیٹ کر
قسمت کی کھرچی ہوئی لکیر سے ٹپکتی رنگین حسرتوں کی تتلیوں سے سفید آنچل کو رنگا
اپنے ہی ماتھے پہ بوسہ دیا اور مدتوں پاس رہنے والے اجبنی احساس کو دور کی جھیلوں سے بلا کر پرندوں کے پروں پہ لکھی اپنی نظم سنا دی، جس کا عنوان تھا
"کبھی ہم خوبصورت تھے"

انجیل صحیفہ

No comments:

Post a Comment