سمجھ نہ لمحۂ حاضر کا واقعہ مجھ کو
گئے دنوں کا میں قصہ ہوں، بھول جا مجھ کو
وہ کون شخص تھا کچھ دم بخود سا، حیراں سا
جو آئینے میں کھڑا دیکھتا رہا مجھ کو
بکھرتی خاک ہوں میں منظرِ بلندی پر
پکارتے تھے کئی نقشِ نا تراشیدہ
سکوتِ سنگ سے آتی تھی اک صدا مجھ کو
سفر کے سخت مراحل میں ساتھ چھوڑ گئے
وہ حوصلے جو دکھاتے تھے راستہ مجھ کو
اکھڑ چلی ہیں طنابیں ہی خیمۂ جاں کی
نفس کی آمد و شُد کر گئی فنا مجھ کو
ہوا نہ سلسلۂ درد منتشر مجھ سے
کہ ساتھ اپنے بکھرنے کا خوف تھا مجھ کو
بس ایک مرگِ مسلسل ہے زندگی میری
یہ کیا خیال تھا جو عمر بھر رہا مجھ کو
سمجھ سکے جو نہ میری خموشیوں کی زباں
میں سوچتا ہوں کہ ایسوں نے کیا سنا مجھ کو
نہیں یہ شہرِِ نوا، میری منزلِ احساس
بلا رہا ہے کوئی دشتِ بے صدا مجھ کو
میں آپ اپنی خموشی کی گونج میں گم تھا
مجھے خیال نہیں، کس نے کیا کہا مجھ کو
نقابِ گرد الٹ دوں میں اپنے چہرے سے
پر آئے بھی تو کوئی ڈھونڈتا ہوا مجھ کو
کسی کی آنکھوں میں دیکھا تو یوں ہوا محسوس
کہ مل گیا ہے مِرا عکسِ گمشدہ مجھ کو
میں اپنا مدِ مقابل تھا آپ ہی مخمور
قدم قدم پہ ہوا میرا سامنا مجھ کو
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment