راہ میں کوئی "چراغوں" کی گلی آتی ہے
شام آتی ہے تو "حیرت" سے بھری آتی ہے
دیکھ، یوں مجھ سے مِری پہلی محبت کا نہ پوچھ
اس طرح دوست "تعلق" میں کمی آتی ہے
اور اب کس کس کو دکھاؤں میں بھلا روح کے زخم
میں نے دیکھا ہے "مناظر" بھی بدل جاتے ہیں
تیری "آنکھوں" کو عجب جادوگری آتی ہے
کتنی آنکهوں سے گزرتا ہوں ان آنکهوں کیلئے
کتنی گلیوں سے گزر کر وہ "گلی" آتی ہے
کس طرح تیری "تمنا" میں گزاری ہے نے
اب تو اس سارے "تماشے" پہ ہنسی آتی ہے
احمد رضوان
No comments:
Post a Comment