رستے تھے دھوپ میں بھی سحابوں بھرے ہوئے
جانے وہ دن کہاں گئے خوابوں بھرے ہوئے
وہ لہر اب کہاں رہی،۔ وہ موج اب کہاں
بس نین رہ گئے ہیں چنابوں بھرے ہوئے
خاموش اگر نہیں رہے تو کیا کرے کوئی
جو غم ملا ہے اس کا کبھی غم نہیں کیا
چکھے نہیں پیالے شرابوں بھرے ہوئے
تلخی گھلی ہوئی ہے مگر لفظ لفظ میں
ہونٹوں کو دیکھیۓ تو عنابوں بھرے ہوئے
دستک پہ شاذ دل مِرا دھڑکا ہے آج پھر
پھر آ گئے لفافے کتابوں بھرے ہوئے
زکریا شاذ
No comments:
Post a Comment