Friday 31 July 2020

جانے وہ دن کہاں گئے خوابوں بھرے ہوئے

رستے تھے دھوپ میں بھی سحابوں بھرے ہوئے
جانے وہ دن کہاں گئے خوابوں بھرے ہوئے
وہ لہر اب کہاں رہی،۔ وہ موج اب کہاں
بس نین رہ گئے ہیں چنابوں بھرے ہوئے
خاموش اگر نہیں رہے تو کیا کرے کوئی
سارے سوال جب ہوئے جوابوں بھرے ہوئے
جو غم ملا ہے اس کا کبھی غم نہیں کیا
چکھے نہیں پیالے شرابوں بھرے ہوئے
تلخی گھلی ہوئی ہے مگر لفظ لفظ میں
ہونٹوں کو دیکھیۓ تو عنابوں بھرے ہوئے
دستک پہ شاذ دل مِرا دھڑکا ہے آج پھر
پھر آ گئے لفافے کتابوں بھرے ہوئے

زکریا شاذ

No comments:

Post a Comment