ٹوٹا ہے آج ابر جو اس آن بان سے
برسے گا کل لہو بھی تِرے آسمان سے
یہ کس کے دل کی آگ سے جلتے ہیں بام و در
شعلے سے اٹھ رہے ہیں بدن کے مکان سے
سورج کی تیز دھوپ سے شاید اماں ملے
چہروں پہ گَرد آنکھوں میں نیندیں فضا خموش
سستا رہے ہیں لوگ سفر کی تکان سے
ہے اپنی اپنی طاقت پرواز کا کمال
مطلب کسی کو کیا تِری اونچی اڑان سے
آخر چٹخ چٹخ کے بکھرنے لگا ہوں میں
ٹکرا گیا تھا رات خود اپنی چٹان سے
نقاش کاظمی
No comments:
Post a Comment