Thursday 30 July 2020

ٹوٹا ہے آج ابر جو اس آن بان سے

ٹوٹا ہے آج ابر جو اس آن بان سے 
برسے گا کل لہو بھی تِرے آسمان سے 
یہ کس کے دل کی آگ سے جلتے ہیں بام و در 
شعلے سے اٹھ رہے ہیں بدن کے مکان سے 
سورج کی تیز دھوپ سے شاید اماں ملے 
رکتی ہے غم کی دھوپ کہیں سائبان سے 
چہروں پہ گَرد آنکھوں میں نیندیں فضا خموش 
سستا رہے ہیں لوگ سفر کی تکان سے 
ہے اپنی اپنی طاقت پرواز کا کمال 
مطلب کسی کو کیا تِری اونچی اڑان سے 
آخر چٹخ چٹخ کے بکھرنے لگا ہوں میں 
ٹکرا گیا تھا رات خود اپنی چٹان سے 

نقاش کاظمی

No comments:

Post a Comment