Friday 31 July 2020

کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے

کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اجڑتی ہے، ایک سمت بستی ہے
بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے؟ خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیئے تو مہنگی ہے،۔ بیچئے تو سستی ہے
خضرِِ منزل اپنا ہوں،۔ اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا، کیا سمجھ کے ہنستی ہے
کیا کہوں سفر اپنا، ختم کیوں نہیں ہوتا؟
فکر کی بلندی، یا حوصلہ کی پستی ہے
حُسنِ بے تماشہ کی، دھوم کیا معمّہ ہے؟
کان بھی ہیں نامحرم، آنکھ بھی ترستی ہے
چتونوں سے ملتا ہے، کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر، پر، سادگی برستی ہے
ترکِ لذتِ دنیا، کیجیۓ تو کس دل سے
ذوقِ پارسائی کیا،۔ فیضِ تنگدستی ہے
دیدنی ہے یاس اپنے رنج و غم کی طغیانی
جھوم جھوم کر کیا کیا یہ گھٹا برستی ہے

یاس یگانہ 

No comments:

Post a Comment