اسے سامانِ سفرِ جان، یہ جگنو رکھ لے
راہ میں تیرگی ہو گی میرے آنسو رکھ لے
تُو جو چاہے تو تیرا جھوٹ بھی بک سکتا ہے
شرط اتنی ہے کہ سونے کی ترازو رکھ لے
وہ کوئی جسم نہیں ہے کہ اسے چھو بھی نہ سکیں
تجھ کو اندیکھی "بلندی" میں سفر کرنا ہے
احتیاطاً میری "ہمت"، میرے بازو رکھ لے
میری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
میرے بھائی! میرے حصے کی زمیں تُو رکھ لے
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment