میں تو خاموش ہی رہتا ہوں وہی بولتا ہے
رات بھر خواب کی گلیوں میں کوئی بولتا ہے
دیکھتا ہوں تو مرے ساتھ کوئی اور نہیں
بولتا ہوں تو مِرے ساتھ کوئی بولتا ہے
اک پرندہ میں جسے دیکھ نہیں سکتا ہوں
میں نے اے دوست پکارا تو نہیں ہے تجھ کو
یہ تو بے ساختہ اندر سے کوئی بولتا ہے
جب مجھے بولتے دیکھا تو کہاں بول سکے
وہ جو کہتے تھے کہ پتھر بھی کبھی بولتا ہے
اس نے بھیجے تھے مجھے صرف عیادت کے گلاب
شہر اس بات کو بھی چارہ گری بولتا ہے
چھاؤں دیتے ہیں جو صحرا میں کسی کو احمد
دل مِرا ایسے درختوں کو ولی بولتا ہے
احمد رضوان
No comments:
Post a Comment