Friday 31 July 2020

رات بھر خواب کی گلیوں میں کوئی بولتا ہے

میں تو خاموش ہی رہتا ہوں وہی بولتا ہے
رات بھر خواب کی گلیوں میں کوئی بولتا ہے
دیکھتا ہوں تو مرے ساتھ کوئی اور نہیں
بولتا ہوں تو مِرے ساتھ کوئی بولتا ہے
اک پرندہ میں جسے دیکھ نہیں سکتا ہوں
روز آتا ہے، کوئی بات نئی بولتا ہے
میں نے اے دوست پکارا تو نہیں ہے تجھ کو
یہ تو بے ساختہ اندر سے کوئی بولتا ہے
جب مجھے بولتے دیکھا تو کہاں بول سکے
وہ جو کہتے تھے کہ پتھر بھی کبھی بولتا ہے
اس نے بھیجے تھے مجھے صرف عیادت کے گلاب
شہر اس بات کو بھی چارہ گری بولتا ہے
چھاؤں دیتے ہیں جو صحرا میں کسی کو احمد
دل مِرا ایسے درختوں کو ولی بولتا ہے

احمد رضوان

No comments:

Post a Comment