لمحہ لمحہ بیت چکا ہے اب جو تم پچھتاؤ تو کیا
بھولی بسری یادیں سب کی آگے بھی دہراؤ تو کیا
کون کسی کا درد سمیٹے کون کسی کا دوست بنے
اپنا درد ہے اپنا پیارے! لوگوں کو دِکھلاؤ تو کیا
پہلے تو تم آگ لگا کر سب کچھ جلتا چھوڑ گئے
اس کا چہرہ اس کی آنکھیں اس کے لب وہ بات کہاں
رنگ برنگی اخباروں کی تصویریں دِکھلاؤ تو کیا
میں اک ایسا پیڑ ہوں جس پر بیٹھ کے سب اڑ جاتے ہیں
تم بھی میری شاخ پہ آ کر بیٹھو، اور اڑ جاؤ تو کیا
سوچ کی دھوپ تو کیا کم ہو گی سوچ کی کرنیں عام کرو
رات کے ساۓ میرے سر کے سورج پر پھیلاؤ تو کیا
توڑ کے پیروں کی زنجیریں میدانوں کا عزم کرو
اپنے گریبانوں کے پرچم کمروں میں لہراؤ تو کیا
اپنے بدن کو صورتِ عیسیٰ نذرِ صلیبِ ظلم کرو
سونے کی معصوم صلیبیں سینوں پر لٹکاؤ تو کیا
کیا کیا شعر کئے ہیں تم نے نقش غزل کی صورت میں
ہم تم کو نقاش کہیں گے، تم شاعر کہلاؤ تو کیا
نقاش کاظمی
No comments:
Post a Comment