Thursday, 30 July 2020

لمحہ لمحہ بیت چکا ہے اب جو تم پچھتاؤ تو کیا

لمحہ لمحہ بیت چکا ہے اب جو تم پچھتاؤ تو کیا 
بھولی بسری یادیں سب کی آگے بھی دہراؤ تو کیا 
کون کسی کا درد سمیٹے کون کسی کا دوست بنے 
اپنا درد ہے اپنا پیارے! لوگوں کو دِکھلاؤ تو کیا 
پہلے تو تم آگ لگا کر سب کچھ جلتا چھوڑ گئے 
دیواریں تاریک ہوئی ہیں اب اس گھر میں آؤ تو کیا 
اس کا چہرہ اس کی آنکھیں اس کے لب وہ بات کہاں 
رنگ برنگی اخباروں کی تصویریں دِکھلاؤ تو کیا 
میں اک ایسا پیڑ ہوں جس پر بیٹھ کے سب اڑ جاتے ہیں 
تم بھی میری شاخ پہ آ کر بیٹھو، اور اڑ جاؤ تو کیا 
سوچ کی دھوپ تو کیا کم ہو گی سوچ کی کرنیں عام کرو 
رات کے ساۓ میرے سر کے سورج پر پھیلاؤ تو کیا 
توڑ کے پیروں کی زنجیریں میدانوں کا عزم کرو 
اپنے گریبانوں کے پرچم کمروں میں لہراؤ تو کیا 
اپنے بدن کو صورتِ عیسیٰ نذرِ صلیبِ ظلم کرو 
سونے کی معصوم صلیبیں سینوں پر لٹکاؤ تو کیا 
کیا کیا شعر کئے ہیں تم نے نقش غزل کی صورت میں 
ہم تم کو نقاش کہیں گے، تم شاعر کہلاؤ تو کیا 

نقاش کاظمی

No comments:

Post a Comment