گھر کے اشجار تھے سو ظرف کشادہ نہ کیا
پاؤں کٹوا لیے، ہجرت کا ارادہ نہ کیا
یہ ہے منظر میں اترنے کا سلیقہ، اس نے
عکسِ "رنگیں" سرِ "آئینۂ" سادہ نہ کیا
وہ ندی تھی سو ذرا پیر بھگو کر نکلے
سنتے آئے ہیں ستاروں کی طرح کچھ ملّاح
ڈوب کر مر گئے، مٹی کو لبادہ نہ کیا
میز پر اب بھی اسی اِسم کی ضو ہے جس نے
تا دمِ مرگ "ملاقات" کا وعدہ نہ کیا
نیلوفر افضل
No comments:
Post a Comment