Friday, 31 July 2020

پھر زمین صبح تک خواب ہو جائے گی آسماں

پھر یہاں ہجر کی شب طلسمِ زمان و مکان صبح تک خواب ہو جائے گا
پھر زمین صبح تک خواب ہو جائے گی آسماں صبح تک خواب ہو جائے گا
پھر اچانک تیرے ناز کی لہلہاتی ہری کھیتیاں خشک ہو جائیں گی
وقت تھم جائے گا، اور ہر ایک منظر یہاں تک خواب ہو جائے گا
نرم لمحوں کی آغوش میں زندگی رقص کرتی رہی، اور کہتی رہی
رقص، کر رقص کر، ورنہ خوشبہ کا سیلِ رواں صبح تک خواب ہو جائے گا
اک تمنا کو تصویر کرنے کی خواہش میں بیدار رہنے سے کیا فائدہ؟
یہ ستارہ، یہ امیدِ موہوم کا اک نشان، صبح تک خواب ہو جائے گا
نیند اک وقفۂ بے طلب ہے یہاں، حرفِ تعبیر کی جستجو ہے ضیاں
چشم بیدار کو علم ہے ہر تعین، ہر گماں صبح تک خواب ہو جائے گا
روشنی کا کٹورا لیے، بام تاریک سے زرد سورج نکلنے کو ہے
اور کچھ صبر کر یہ سلگتا لہو میری جاں! صبح تک خواب ہو جائے گا
دیکھ! غمزہ نہ کر، دیکھ! کشوا نہ کر، عشق کی انتہا ہجر ہی ہجر ہے
وادئ ہجر میں پھر تیرا حسنِ شعلہ بیان، صبح تک خواب ہو جائے گا

رضی حیدر 

No comments:

Post a Comment