کیسے جیتے ہیں زمانے والے
بزمِ ساقی سے یوں جانے والے
دیکھ لے اور کوئی در مدام
ہم نہیں ہیں دام میں آنے والے
ہے طلب تجھ کو شہنائی کی
یوں بہاروں کی آبرو رکھیں
سوکھے پتوں کو اٹھانے والے
غم نہیں زیست کا اب ہم کو
ہم نہیں لوٹ کے آنے والے
کیوں اندھیرے کا بیوپار کریں
یہ چراغوں کو بجھانے والے
ہوں گے شرمندہ ایک دن دیکھو
نقش بزمی کا مٹانے والے
عرفان بزمی
No comments:
Post a Comment