وقت عجیب آ گیا، منصب و جاہ کے لیے
صاحبِ دل بھی چل پڑے، تخت و کلاہ کے لیے
اس کا ہدف بھی دیکھنا، میری طرف بھی دیکھنا
قتلِ انا کی شرط ہے، اس سے نِباہ کے لیے
ایک نوائے آتشیں، حلقہ بہ حلقہ جسم میں
کہتا تھا کوئی شمع رخ، دیکھ مِرے چراغِِ شب
کوئی کرن بچا کے رکھ، روزِِ سیاہ کے لیے
اک شبِ ماہ کے لیے، دل ہے لہو لہو رضی
آنکھ ستارہ کیش ہے، اک شبِ ماہ کے لیے
رضی حیدر
No comments:
Post a Comment