Thursday, 30 July 2020

نکلے صدف کی آنکھ سے موتی مرے ہوئے

نکلے صدف کی آنکھ سے موتی مرے ہوئے
پھوٹے ہیں چاندنی سے شگوفے جلے ہوئے
ہے اہتمامِ گریہ و ماتم چمن چمن
رکھے ہیں مقتلوں میں جنازے سجے ہوئے
ہر ایک سنگِ میل ہے اب ننگِ رہگزر
ہیں رہبروں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
اب میکدے میں بھی نہیں کچھ اہتمامِ کیف
ویران ہیں شعور، تو دل ہیں بجھے ہوئے
ساغر یہ وارداتِ سخن بھی عجیب ہے
نغمہ طرازِ شوق ہوں، لب ہیں سلے ہوئے

ساغر صدیقی

No comments:

Post a Comment