فریبِ منزلِ یک آرزو، قرار کے خواب
نظر نظر میں سلگتے ہیں اعتبار کے خواب
بریدہ شاخ نے پھر زخم زخم آنکھوں میں
سجا لیے ہیں کسی موجۂ بہار کے خواب
کبھی کبھی میری آنکھوں میں جاگ اٹھتے ہیں
ہوا کے دل میں نجانے ہے کیا کہ مدت سے
بکھیرتی چلی جاتی ہے ریگزار کے خواب
کہانی' اپنی 'مکمل' نہ ہو سکی خورشید'
کہ لٹ گئے کہیں رستے میں دور پار کے خواب
خورشید ربانی
No comments:
Post a Comment