Friday 31 July 2020

نظر نظر میں سلگتے ہیں اعتبار کے خواب

فریبِ منزلِ یک آرزو، قرار کے خواب
نظر نظر میں سلگتے ہیں اعتبار کے خواب
بریدہ شاخ نے پھر زخم زخم آنکھوں میں
سجا لیے ہیں کسی موجۂ بہار کے خواب
کبھی کبھی میری آنکھوں میں جاگ اٹھتے ہیں
کسی خیال کی خوشبو سے وصلِ یار کے خواب
ہوا کے دل میں نجانے ہے کیا کہ مدت سے
بکھیرتی چلی جاتی ہے ریگزار کے خواب
کہانی' اپنی 'مکمل' نہ ہو سکی خورشید'
کہ لٹ گئے کہیں رستے میں دور پار کے خواب

خورشید ربانی

No comments:

Post a Comment