Thursday 30 July 2020

میں ترے اسم کی امان میں ہوں

جب سے اس شہرِ بے مکان میں ہوں
میں تِرے اِسم کی امان میں ہوں
گنبدِ شعر میں جو گونجتی ہے
میں اسی درد کی اذان میں ہوں
میں نے تنہائیوں کو پالنا ہے
اس لیے خواب ہی کے دھیان میں ہوں
تتلیاں رنگ چنتی رہتی ہیں
اور میں خوشبوؤں کی کان میں ہوں
وحشتیں، عشق اور مجبوری
کیا کسی خاص امتحان میں ہوں؟
خواہشیں سایہ سایہ بکھری ہیں
اور میں دھوپ کے مکان میں ہوں
میں ہوں پیکانِ درد اے خورشید
اور اک یاد کی کمان میں ہوں

خورشید ربانی

No comments:

Post a Comment