مانا کہ مدتوں سے اجالے نہیں ہوئے
ہم پھر بھی ظلمتوں کے حوالے نہیں ہوئے
برتے ہیں ذرہ ذرہ، جیے ہیں ذرا ذرا
ہم نے تمہارے درد سنبھالے نہیں ہوئے
قسمت کا پھیر ہے جو پھراتا ہے دربدر
ہر ایک مبتلا کو ستاتا ہے یونہی عشق
تم سے روا سلوک نرالے نہیں ہوئے
کیا سر کی خاک تم کو بتائے سفر کا حال
کافی گواہ پاؤں کے چھالے نہیں ہوئے
ہم کو یقیں ہے چاند ہی اترے گا ہاتھ پر
سکہ یونہی ہوا میں اچھالے نہیں ہوئے
نیلم ملک
No comments:
Post a Comment