سیاہ رات کی ہر دل کشی کو بھول گئے
دئے جلا کے ہمیں روشنی کو بھول گئے
کسی کلی کے تبسم نے بے کلی دی ہے
کلی ہنسی تو ہم اپنی ہنسی کو بھول گئے
جہاں میں اور رہ و رسمِ عاشقی کیا ہے
یہی ہے "شیوۂ" اہلِ "وفا" زمانے میں
کسی کو دل سے لگایا کسی کو بھول گئے
ذرا سی بات پہ "دامن" چھڑا لیا ہم سے
تمام عمر کی "وابستگی" کو بھول گئے
خدا پرست خدا سے تو لو لگاتے رہے
خدا کی شان مگر "آدمی" کو بھول گئے
وہ جس کے غم نے غمِ زندگی دیا ہے ظفر
اسی کے غم میں غمِ زندگی کو بھول گئے
احمد ظفر
No comments:
Post a Comment