جو تیرے ساتھ گزاری، لپیٹ کے رکھ دی
وہ رات ہجر نے ساری، لپیٹ کے رکھ دی
بہت لگن سے کیا تھا چراغوں کو روشن
ہوا نے کار گزاری، لپیٹ کے رکھ دی
میں بھیگی رات کو کل دھوپ میں سُکھاؤں گا
بس اک دوپٹہ تھا جو اس گلے پہ ٹھہرا رہا
جو شال اوڑھی تھی بھاری، لپیٹ کے رکھ دی
تمہارا نام لیا، واسطے دیئے اس نے
شجر کو کاٹتی آری، لپیٹ کے رکھ دی
وہ اونچی ذات کا چھورا تھا صاف بچ نکلا
وہ نیچ ذات کی ناری، لپیٹ کے رکھ دی
اسی کے کہنے پہ پہنی تھی آج شرٹ بلیک
ملا نہیں وہ، اتاری، لپیٹ کے رکھ دی
آصف انجم
No comments:
Post a Comment