خرد سے بارِ دِگر انحراف کرتے ہُوئے
پھر آج دل سے لگا بیٹھے نام برتے ہوئے
یہ رائیگانئ دل خلق پر نہ کھُل جائے
سمیٹ لینا مِرے جسم و جاں بکھرتے ہوئے
جو محوِ رقص رہے رنگ و نور کے چو گِرد
وہ تختِ جاں تھا جہاں تیری تاج پوشی کی
سو کس جگر سے تجھے دیکھ لوں اترتے ہوئے
ہُوا تھا حکمِ سفر، دِل مگر تھا رُو گرداں
سو رِہ میں بیٹھ رہے، دل پہ دوش دھرتے ہوئے
تمہارے نام کے ہِجے سنوار کر، اس میں
اب اپنا نام ملائیں گے، رنگ بھرتے ہوئے
جنوں پہ طعن کریں پارسائی کے واعظ
ہوس کے کوچۂ رنگین سے گزرتے ہوئے
سحر قریب ہوئی، آؤ آنکھ میں بھر لیں
یہ پارہ پارہ تمنائیں، خواب مرتے ہوئے
سیماب ظفر
No comments:
Post a Comment