روح سے عشق کیا، اور بدن چھوڑ دیا
میں نے انسان کا 'آبائی' وطن چھوڑ دیا
وہ مِرے ہاتھ میں تھا، کچھ بھی میں کر سکتا تھا
میری خواہش پہ ہوئی حاوی تھکن، چھوڑ دیا
اس نے یوں چھوڑ دی پائل کہ بہت بھاری ہے
مجھ سے کیا بچھڑا ہے وہ، ایسے خبر پھیل گئی
جیسے 'جیا' نے 'امیتابھ' بچن 'چھوڑ' دیا
خاک تُو شہد بناۓ گی، کہ رس لائی نہیں
پھول چوس آئی مگر اس کا بدن چھوڑ دیا
چل پڑی لے کے شِکم میں وہ نشانی میری
ایک سرخی کے لیے سارا متن چھوڑ دیا
افکار علوی
No comments:
Post a Comment