پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں
اس وقت غالباً انہیں "یاد" آ رہا ہوں میں
کیا چشمِ "التفات" کا مطلب سمجھ گیا
کیوں ترکِ آرزو کی قسم کھا رہا ہوں میں
کیا کچھ نہ تھی شکایتِ "کوتاہئ" نظر
تو یہ سمجھ رہا ہے کہ مجبورِ عشق ہوں
کچھ سوچ کر فریبِ وفا کھا رہا ہوں میں
حبیب اشعر دہلوی
No comments:
Post a Comment