Friday 31 July 2020

اک شاعر کامل کہ تخلص میں تھا قاصر

نذرِ قاصر

اک شاعرِ کامل کہ تخلص میں تھا قاصر
چالاکوں کی بستی کا وہ شرمیلا مسافر
جا کر بھی، تسلسل سے رہا بزم میں حاضر
نیل آٹھواں فن میں ہوا جس کے متبادر
دریائے گماں، ہے زبر و زیر ابھی تک
سکتے میں ہیں سب، رہتا ہے اک شعر ابھی تک

داماں، کے بھرے رنگ وہ دامانِ غزل میں
جوں سوریا اشنان کرے سندھ کے جل میں
آتی ہے نظر شمع کی لو جیسے کنول میں
خوشبو کو گرفت ایسے کیا عکسِ عمل میں
شیشے سے نہ چھلکے تو بہکتا نہیں کوئی
تصویرِ ہنر دیکھتے تھکتا نہیں کوئی
جز کارِ محبت اسے کچھ آتا نہیں تھا
غم کھائے بنا لقمہ کوئی کھاتا نہیں تھا
بے مجمعِ احباب سکوں پاتا نہیں تھا
خوش خوش کہیں ڈیرے سے پرے جاتا نہیں تھا
ضوپاش تھا وہ انجم و مہتابِ قلم میں
صفدر سے نذیر اشک سے اربابِ قلم میں
لاہور، پشاور سے رہا جان کا رشتہ
ہے از ازل انسان سے انسان کا رشتہ
نعمت ہے ندیم ایسے سخن دان کا رشتہ
محسن سے ہمیشہ رہے احسان کا رشتہ
تا عمر محبت کا سبق اس کو نہ بھولا
واللہ کبھی بندوں کا حق اس کو نہ بھولا
جتنا بڑا شاعر تھا وہ اتنا بڑا انسان
عادات سے لگتا تھا ہے لکھا پڑھا انسان
دشمن ہے تعقل کا انا پر اڑا انسان
بھاتا تھا نہ اک آنکھ اسے نک چڑھا انسان
سب گرد کدورت کی بہا دیتا ہنسی میں
قسمت کی ہر اک چوٹ اڑا دیتا ہنسی میں
کی اس نے نہ دنیا کے گداؤں کی خوشامد
دے سکتی ہے کیا خواجہ سراؤں کی خوشامد
آفت زدہ بے بال ہماؤں کی خوشامد
خواہش سے بندھے عقدہ کشاؤں کی خوشامد
حمد اس نے کہی مالکِ افلاک و زمیں کی
یا شان لکھی سرورِ دیںﷺ، آلِ مبیں کی
اسرار بہ اصرارِ جلی کہنے لگا ہوں
اک بندۂ عاجز کو ولی کہنے لگا ہوں
من مات علی، حبِ علی کہنے لگا ہوں
میں اس کو مریدِ ازلی کہنے لگا ہوں
مداحِ حسین ابن علی خود نہیں بنتا
اللہ بناتا ہے، ولی خود نہیں بنتا

نامعلوم 

No comments:

Post a Comment