Thursday 30 July 2020

تیرے جانے کو بھلایا تو نہیں جا سکتا

طاقِ رفتہ پہ، سجایا تو نہیں جا سکتا
تیرے جانے کو بھلایا تو نہیں جا سکتا
یاد کر لیتا ہوں ہر روز تیرے ملنے کو
دوسرے شہر سے آیا تو نہیں جا سکتا
جو ملے، تیری شباہت سے الگ ہوتا ہے
اب کوئی تجھ سا، بنایا تو نہیں جا سکتا
اپنے ساۓ کی رفاقت ہے بڑی بات، مگر
ہر جگہ ساتھ، یہ سایہ تو نہیں جا سکتا
اپنے دل میں ہی لیے بیٹھے رہو آتشِ غم
شہر کا شہر 'جلایا' تو نہیں جا سکتا

احمد رضوان

No comments:

Post a Comment