Friday, 31 July 2020

دل جو مل بھی جائیں تو قسمتیں نہیں ملتیں

کب گلی محلے میں رونقیں نہیں ملتیں
لیکن اب وہ پہلی سی صورتیں نہیں ملتیں
جس طرف بھی جاتے ہیں جمگھٹے ہیں لوگوں کے
جمگھٹے ہی ملتے ہیں، محفلیں نہیں ملتیں
کیسے ایک جیسے ہوں تجربے محبت میں
سب کو ایک جیسی تو چاہتیں نہیں ملتیں
اور بہت سی باتوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے
صرف چلتے رہنے سے منزلیں نہیں ملتیں
اِس سے ملنے جاتے تھے اُس سے ملنے جاتے تھے
اب تو ہم کو خود سے ہی فرصتیں نہیں ملتیں
ختم ہی نہیں ہوتا رونا اس محبت کا
دل جو مل بھی جائیں تو قسمتیں نہیں ملتیں
ٹکڑیوں میں، خانوں میں شاذ بٹ گیا ہوں میں
اب تو میری مجھ سے بھی عادتیں نہیں ملتیں

زکریا شاذ

No comments:

Post a Comment