کب گلی محلے میں رونقیں نہیں ملتیں
لیکن اب وہ پہلی سی صورتیں نہیں ملتیں
جس طرف بھی جاتے ہیں جمگھٹے ہیں لوگوں کے
جمگھٹے ہی ملتے ہیں، محفلیں نہیں ملتیں
کیسے ایک جیسے ہوں تجربے محبت میں
اور بہت سی باتوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے
صرف چلتے رہنے سے منزلیں نہیں ملتیں
اِس سے ملنے جاتے تھے اُس سے ملنے جاتے تھے
اب تو ہم کو خود سے ہی فرصتیں نہیں ملتیں
ختم ہی نہیں ہوتا رونا اس محبت کا
دل جو مل بھی جائیں تو قسمتیں نہیں ملتیں
ٹکڑیوں میں، خانوں میں شاذ بٹ گیا ہوں میں
اب تو میری مجھ سے بھی عادتیں نہیں ملتیں
زکریا شاذ
No comments:
Post a Comment