Wednesday 29 July 2020

نہیں منزل نگاہ راہرو میں

تماشا ہے کہ سب آزاد قومیں
بہی جاتی ہیں آزادی کی رو میں
وہ گردِ کارواں بن کے چلے ہیں
ستارے تھے رواں جن کے جلَو میں
سفر" کیسا؟ فقط "آوارگی" ہے"
نہیں "منزل" نگاہِ "راہرو" میں
"ہے سوزِ "دل" ہی رازِ "زندگانی
حیاتِ شمع ہے صرف اس کی لَو میں
بہت تھے ہم زباں، لیکن جو دیکھا
نہ نکلا ایک بھی "ہمدرد" سو میں
اسدؔ "ساقی" کی ہے دوہری عنایت
شراب" کہنہ "ڈالی" جامِ" نَو" میں"

اسد ملتانی

No comments:

Post a Comment