وہ عزم ہو کہ منزلِ بیدار ہنس پڑے
ہر نقشِ پا پہ جرأتِ رہوار ہنس پڑے
اب کے برس بہار کی صورت بدل گئی
زخموں میں آگ لگ گئی گلزار ہنس پڑے
اس داستانِ درد کی تمہید آپ ہیں
حیران ہو رہی ہے شگوفے پہ چاندنی
شاید قفس پہ آج گرفتار ہنس پڑے
مٹ جاۓ تیرے نام سے ہر تلخئ جفا
وہ کام کر کہ بے کس و نادار ہنس پڑے
میرے جنوں نے آج وہ سجدہ ادا کیا
بت خانۂ حیات کے آثار ہنس پڑے
پھر شادماں ہوۓ ہیں خرابے حیات کے
ساغر کسی کے گیسوئے خمدار ہنس پڑے
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment